Sunday 18 March 2018

Ikhlaqi Kahaniyan


                                                            خوددار

                              
                                 

صفوان کے گھر کے قریب ایک بڑی عمارت بن رہی تھی جس میں بہت سے مزدور کام کررہے تھے ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے اسکول آتے جاتے وہ اس عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں کو دیکھا کرتا تھا خاص طور پر چودہ پندرہ سال کے لڑکے کو جو صبح سب سے پہلے مزدوری والی جگہ پر موجود ہوتا اسکول سے واپسی پر صفوان کے بابا کی گاڑی جیسے ہی وہاں سے گزرتی تو کبھی کبھی بابا مزدوروں کو بلا کر کچھ پیسے دیتے کبھی جلدی میں ہونے کی وجہ سے آگے بڑھ جاتے لیکن وہ لڑکا بُلا نے پر بھی کبھی نہیں آیا پتا نہیں کیوں صفوان کی توجہ بار بار اس کی طرف کھینچتی تھی صفوان نے کسی سے اس کا نام پوچھا تو پتا چلا کہ اس کا نام فرقان ہیں،

ایک دن بابا اور دادا نے اپنے مال کی سالانہ زکوٰة کا حساب لگایا رقم زیادہ تھی دونوں کا خیال تھا کہ زیر تعمیر عمارت میں کام کرنے والے مزدوروں میں زکوٰة کی رقم تقسیم کردی جائے یہ سن کر صفوان خوش ہوگیا اس نے بابا کو فرقان کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس لڑکے کو زیادہ روپے دیے جائیں کیوں کہ وہ کبھی کسی سے کچھ مانگتا نہیں ہے۔



دوسرے دن جب وہ وہاں پہنچے تو صفوان نے دور سے فرقان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا یہی ہے وہ لڑکا اس وقت فرقان سیمنٹ بجری سے بھری پرات سر پر رکھ کر دوسرے مزدور تک پہنچا رہا تھا ،بابا کے بلانے پر وہ آگیا بابا نے اس کی طرف کچھ نوٹ بڑھائے اور کہا،لے لو یہ تمہارے لیے ہیں۔



اس نے نوٹوں کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تھا اور حیرانی سے پوچھنے لگا مگر کیوں؟
بابا نے کہا یہ زکوٰة کی رقم ہیں اس نے بابا کے ہاتھ میں پکڑے نوٹ نظر انداز کرتے ہوئے کہا میں بھکاری نہیں ہوں نہ میں اپاہج ہوں کہ زکوٰة کے روپوں سے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی ضرورتیں پوری کروں۔



یہ کہہ کر وہ تو پرات سنبھالتا ہوا چلا گیا مگر بابا اور صفوان کو حیران کرگیا صفوان نے بابا کی طرف دیکھا تو انہوں نے کندھے اُچکادیے پھر بابا عمارت بنانے والے ٹھیکے پھر بابا عمارت بنانے والے ٹھیکے دار کے پاس گئے انہوں نے ٹھیکے دار کو پوری بات بتاکر زکوٰة کی رقم مزدوروں میں تقسیم کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ فرقان کو تھوڑے زیادہ روپے دے دیے جائیں ٹھیکے دار ان کی بات سن کر مسکرایا اور بولا وہ لڑکا بھیک،زکوٰة خیرات اورصدقے کے روپے کبھی نہیں لیتا وہ اکثر مجھ سے قرض مانگتا ہے تاکہ بازار میں بریانی بیچ کر کچھ زیادہ پیسے کماسکے میں خود غریب آدمی ہوں اسے اتنا زیادہ قرض نہیں دے سکتا،یہ دن کر وہ دونوں گھر واپس آگئے مگر اسی وقت بابا نے بیس ہزار روپے نکالے اور صفوان کو ساتھ لے کر وہ دوبارہ فرقان کے پاس آگئے لفافہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا بیٹا یہ قرض ہے جب تمہارا بریانی والا کام چل نکلے تو آہستہ آہستہ لوٹا دینا۔



فرقان حیرت خوشی اور آنسوﺅں سے بھری آنکھوں سے بابا کو دیکھ رہا تھا اس وقت صفوان کو بے حد خوشی ہوئی جب فرقان نے بابا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رقم لے لی اور گننے کے بعد دو ہزار بابا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا صاحب مجھے اٹھارہ ہزار کی ضرورت ہے آپ یہ دو ہزار واپس لے لیں۔



بابا مسکرائے بیٹا تم کاروبار شروع کرنے جارہے ہوں اس میں اندازے سے زیادہ روپے لگانے پڑتے ہیں رکھ لو ویسے بھی تمہیں یہ روپے واپس تو کرنے ہیں نا آج نہیں تو چند ماہ بعد بابا نے دو ہزار روپے بھی اس کی جیب میں اپنے ہاتھ سے رکھ دیے۔



سب واپس آگئے اس کے بعد فرقان اس عمارت میں دوسرے مزدوروں کے ساتھ نظر نہیں آیا تقریباً دو ماہ بعد صفوان کسی کام سے بازار گیا تو وہاں فرقان کو ایک جگہ بریانی کی دودیگوں کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر اسے بے حد افسوس ہوا کہ دو دیگیں روزانہ بیچ کر بھی وہ قرض واپس نہیں کررہا گھر آکر اس نے بات بابا سے بھی کہہ دی وہ مسکرا کر بولے فرقان یقینا کوئی دوسری اہم ضرورت ہوگی جب ہی اس نے قرض واپس نہیں کیا ورنہ وہ ایسا لڑکا نہیں یہ سن کر صفوان خاموش ہوگیا چوتھے مہینے فرقان سات ہزار روپے لے کر آیا اور بابا کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا صاحب میں تو پڑھ لکھ نہیں سکا مگر اپنے بہن بھائیوں کو پڑھانا چاہتا ہوں تاکہ وہ بڑے آدمی اور اچھے انسان بن سکیں اسکول میں داخلے کی تاریخ آگئی تھی اس لیے آپ کا قرض لوٹانے سے پہلے میں نے جمع کی ہوئی رقم سے بہن بھائیوں کی اسکول کی فیس جمع کرادی ہیں اس لیے آپ کا قرض لوٹانے میں بھی تاخیر ہوگئی آپ کو بُرا تو نہیں لگا؟
بابا نے اس کی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے کہا برا ضرور لگتا اگر تم اپنے بہن بھائیوں کا اسکول میں داخلہ روک کر میرا قرض واپس کرتے ایک دن صفوان اور اس کے بابا بازار سے گزرہے تھے کہ صفوان نے بابا کو بتایا بابا دیکھیں فرقان کے پاس دو کی بجائے ایک ہی دیگ ہیں دوسری کہاں گئی؟
بابا نے یہ سن کر گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کی اور فرقان کے پاس آئے وہ انہیں دیکھ کر کھڑا ہوگیا کرسی پر بٹھایا اور بریانی کی پلیٹ پیش کی برابر والی دکان سے کولڈ ڈرنک خرید لایا وہ انہیں اپنی دکان پر دیکھ کر بہت خوش ہوا بریانی کھانے کے بعد بابا نے اس سے پوچھا فرقان بیٹا آپ کے پاس دو دیگیں تھیں نا دوسری نظر نہیں آرہی؟یہ دن کر وہ گڑ بڑا گیا پھر جھجکتے ہوئے بتانے لگا صاحب میرا ایک دوست ہیں کچھ دن پہلے بے چارے کے ابو کا ایک حادثے میں اچانک انتقال ہوگیا گھر میں کوئی کام کرنے والا نہیں فاقوں کی نوبت آگئی تھی اس لیے میں نے ایک دیگ اسے دے دی تاکہ وہ با عزت طریقے سے روزی کما سکے جس طرح اپنے مجھے بھکاری بننے سے بچایا تھا بالکل اسی طرح میں نے اپنے دوست کو بھکاری بننے سے بچالیا۔



بابا نے واپسی پر صفوان سے کہا تم اکثر پوچھتے ہونا کہ بڑا آدمی کون ہوتا ہے بڑا آدمی کیسے بنتے ہیں ؟بیٹا حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں فرقان سے زیادہ بڑا آدمی آج تک نہیں دیکھا دولت گاڑی،بنگلا،بینک بیلنس رکھنے والے لوگ بڑے نہیں ہوتے بلکہ خوددار،محنتی،ایمان دار اور انسانوں کی خدمت کرنے والا بڑا آدمی کہلانے کا مستحق ہے۔


Haqiqat


                                                              حقیقت



میں ان خاتون کو نہیں جانتا اور نہ میں ان کا بیٹا ہوں لیکن حال ہی میں میری ماں کینسر کے باعث انتقال کرگئیں یہ خاتون مجھے اپنی ماں جیسی لگیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جب تک ان کے گھر والوں کا پتا نہیں چل جاتا میں انہیں اپنی ماں کی طرح رکھوں گا ان کا علاج بھی کرواﺅں گا






وہ شخص اپنی بات ختم کرکے کمرے سے نکلنے ہی والا تھا کہ شمائل نے جلدی سے ایک ہی سانس میں کہہ دیا سُنیے جناب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے میں ان خاتون کو نہیں جانتا اور نہ میں ان کا بیٹا ہوں لیکن حال ہی میں میری ماں کینسر کے باعث انتقال کرگئیں یہ خاتون مجھے اپنی ماں جیسی لگیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جب تک ان کے گھر والوں کا پتا نہیں چل جاتا میں انہیں اپنی ماں کی طرح رکھوں گا ان کا علاج بھی کرواﺅں گا جناب آپ نے یہ بتا کر مجھے ایک بار پھر حیران کردیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بے چاری کو اپنا اصل بیٹا بھی یاد نہیں اس نے آپ ہی کو اپنا بیٹاک سمجھ لیا اگر آپ انہیںماں سمجھ کر اپنے پاس رکھ لیں تو اس نیکی کا اجر اللہ تعالیٰ ضرور دے گا آج کل کے دور میں لوگ اپنے حقیقی والدین کو نہیں پوچھتے تو آپ کا یہ بڑا پن ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اُٹھانے کو تیار ہیں۔
جی بالکل میرے لیے یہ خوشی کی بات ہوگی کہ میں اپنی ماں کی طرح ان کی خدمت کرسکوں۔اس کے بعد انہوں نے مل کر چائے پی اور پھر وہ بوڑھی خاتون خوشی خوشی شمائل کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئیںچند دنوں کے بعد ہی شمائل کے گھر کا نقشہ بدل گیا وہ گھر واپس آتا تو اس کو سب چیزیں اس طرح ملتیں جس طرح اس کی والدہ ترتیب سے رکھا کرتی تھیں کھانا بھی وقت پر تیار ہوتا شمائل بھی انہیں امی جان ہی کہتا اور ان کی خوب خدمت کرتا وہ کبھی کبھی یوں ہی اُداس اور غمگین ہوجاتیں تب شمائل پوچھتا امی جان خیریت تو ہے آپ اتنی اُداس کیوں ہوجاتی ہے؟آپ اتنی اُداس کیوں ہوجاتی ہیں؟نہیںنہیںیسی کوئی بات نہیں بس ایسے ہی اکیلے ہونے کی وجہ سے پریشان ہوجاتی ہوں۔
“لیکن میں آپ کے پاس شام کو آتوجاتا ہوں آپ کو اندازہ نہیں کہ جب میں اپنی والدہ کے بعد تنہا ہوگیا تھا تو یہ گھر کس قدر بے رونق اور اُداس معلوم ہوتا تھا؟آپ کے آنے سے اس میں زندگی لوٹ آئی ہے اس لیے میں آپ کی صحت اور طویل عمر کے لیے ہر وقت دعا گو رہتا ہوں میں آپ کو کھو کر دوبارہ اسی دکھ اور اذیت سے نہیں گزرنا چاہتا چند ہی ہفتوں میں ماں جی صحت بہت اچھی ہوگئی اور وہ ہر وقت خوش رہنے لگی تھیں جہاں شمائل کو اُن کی صورت میں ماں مل گئی تھیں وہیں اُن کوبھی شمائل کی صورت میں فرماں بردار اور دیکھ بھال کرنے والا بیٹا مل گیا تھا جس کی خدمت گزاری اور خلوص و محبت سے وہ بے حد خوش تھیں،شمائل نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بوڑھی خاتون کے گھر والے یہاں تک پہنچیں اس لیے اُس نے کبھی خاتون سے ان کے ماضی کے حالات نہ گریدے البتہ وہ ان کی یاداشت کا باقاعدگی سے ایک بہت اچھے معالج سے کروارہا رتھا اور اب وہ کافی حد تک بہتر تھیں اور گھر کے تقریباً سبھی کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیتی تھیں کمپنی کے مالک نے ارسلان کو جب شمائل کی ماتحتی میں ملازمت کے لیے بھیجا تھا توشمائل خوشی خوشی دوسرے ہی دن اسے اپنے گھر لے گیا وہیں پر اُس کی ملاقات شمائل کی اس والدہ سے ہوئی اور اسے ایک لمحے کو بھی احساس نہ ہوا کہ شمائل کی اصل والدہ نہیں ہیں بعد میں جب اسے یہ علم ہوا کہ شمائل نے اپنی ماں کے علاج معالجے کے لیے آفس سے بھاری قرضہ وصول کیا اور اب باقاعدگی سے اُتارنے کی کوشش کررہا ہے تو اس بات کو سمجھ نہ سکا تھا کہ شمائل کی ماں کینسر جیسے مرض کے بعد اتنی صحت یاب اور تن درست کس طرح ہوگئیں،دوسری جانب وحید صاحب کی اس بات نے بھی اُسے حیرت میں ڈال دیا تھا کہ شمائل کی والدہ کو فوت ہوئے چند ماہ گزرچکے ہیں اور تب اس نے آفس سے چھٹیاں بھی لی تھیں اگرچہ اس برانچ کو کافی نقصان کا بھی سامناکرنا پڑا ارسلان سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی دانست میں شمائل کا بھانڈا پھوڑ دیا وحید صاحب بھی شک میں مبتلا ہوکر چند لمحوں کے لیے سوچ میں پڑگئے تھے،چند دنوں کے بعد ارسلان نے وحید صاحب کو راضی کرلیا کہ آپ خود یہاں آئیں اور اس برانچ کا حال احوال معلوم کیجیے سچ ہے کہ جب ایک بار شک کا بیچ کسی ذہن میں بودیا جائے تو وہ جلد اگنے لگتا ہے اور گھنے درخت کی صورت اختیار کرتا جاتا ہے رات کا وقت تھا دروازے پر دستک ہوئی شمائل نے دروازہ کھولا تو ہکا بکا رہ گیا سامنے وحید صاحب ارسلان کے ساتھ کھڑے تھے ،سر آپ؟ارسلان کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے وہ لمحہ آپہنچا تھا کہ شمائل کی پول کھل جاتی اور ارسلان کو شمائل کو عہدہ مل جاتا اپنی آمد کی پہلے اطلاع نہ دینے کا مقصد یہی تھا کہ کہیں شمائل اپنی والدہ کو کسی عزیز رشتے دار کے ہاں نہ بھیج دئے،شمائل نے خوشی سے دونوں کو اندر آنے کی دعوت دی اور پھر ان کی خاطر تواضع میں مصروف ہوگیا وحید صاحب نے ارسلان کی جانب معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور پھر شمائل کو مخاطب کرکے بولے شمائل مجھے تمہاری والدہ کے انتقال کا بہت افسوس ہوا تھا میں کسی کام سے اس شہر میں آیا تو سوچا کہ دیکھتا چلوں تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں۔
سر میں آپ کے احسانات کا پہلے ہی بے حد ممنون ہوں آپ نے ہر مشکل میں میرا ساتھ دیا میری والدہ کی بیماری کا تمام عرصہ واقعی کٹھن تھا مگر آپ نے میری ہر ضرورت کا خیال رکھا میں آپ کا احسان ہرگز نہیں بھولوں گا آپ مجھے ہمیشہ وفارادر پائیں گے ،ارسلان بولا شمائل صاحب جب آپ نے میری دعوت کی تھی تو تب آپ کی والدہ حیات تھی،شمائل مسکراتے ہوئے کہنے لگا بس یہ قدرت کا کرشمہ ہے خدا نے مجھے ایک بے یارومددگار ماں سے ملوادیا جس کو بیٹے کی ضرورت تھی اور مجھے ماں کی یہ کہتے ہوئے اس نے باورچی خانے کی جانب منھ کرکے بلند آواز سے کہا امی جان آئیں میں آپ کو اپنی کمپنی کے مالک سے ملواﺅں،شمائل کی والدہ چائے نمکو اور بسکٹ میز پر سجانے کے بعد وہیں صوفے پر بیٹھ گئیں انہوں نے وحید صاحب کی جانب گھور کردیکھا وحید صاحب تو پہلے ہی ٹھٹک گئے تھے ارسلان نے ماں جی سے پوچھا ماں جی کیا شمائل آپ ہی کا بیٹا ہے؟انہوں نے ایک نگاہ وحید پر ڈالی اورپھر مسکراتے ہوئے شمائل کو دیکھا اور کہا ہاں یہی تو میرا پیارا بیٹا ہے ارسلان کا دل ایک بار پھر تیز تیز دھڑکنے لگا وہ وحید صاحب کو جتانا چاہتا تھا کہ سر میں نے کہا تھا ناں کہ شمائل کی والدہ ماشاءاللہ حیات ہے وحید صاحب بجھے دل سے بے چینی سے پہلو بدلتے رہے انہوں نے چائے بھی نہیں پی جب وہ جانے لگے تو دروازے کے قریب پہنچ کر ماں جی نے سرگوشی کے انداز میں وحید صاحب سے کہا بیٹا مجھے امید ہے کہ تو اپنی بیوی کے ساتھ خوش ہوگا بہو تو کچھ زیادہ ہی خوش ہوگی میں نے تجھے شرمندگی سے بچانے کے لیے ان دونوں پر یہ حقیقت نہیں ظاہر ہونے دی ویسے بھی اب میں کبھی بھی اُس گھر میں واپس نہیں جاﺅں گی جہاں سے مجھے در بدر کردیا گیا تھا میں نے تو صدمے کے باعث اپنی یاداشت ہی کھودی تھی بیٹے شمائل نے مجھے دوبارہ سے نئی زندگی بخشی تو اپنی دنیا میں خوش رہ مجھے وہ بیٹا مل گیا جسے میری ضرورت اور جس کے دل میں ماں کی قدر تھی وحید صاحب ہاتھ ملتے ہوئے بے بسی کے عالم میں پرنم آنکھوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے آج ماں نے اپنے بیٹے کو دھتکاردیا تھا ارسلان ان کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے بولا سر آپ بالکل خاموش ہوگئے آپ نے دیکھا کہ وہ خاتون کہہ رہی تھی کہ شمائل ان کا اصل بیٹا ہے مگر شمائل کس قدر صفائی سے جھوٹ بول رہا تھا مجھے تو بے حد حیرانی ہوئی ہے سر آپ کچھ پریشان ہیں؟وحید صاحب کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھری ہوئی تھیں مگر اندھیرے میں ارسلان دیکھ نہیں پایا چند روز بعد شمائل کو وحید کی جانب سے ایک لیٹر موصول ہوا جس میں والدہ کے علاج کے لیے حاصل کردہ قرضہ معاف کردیا گیا اور اس کی تنخواہ بھی دُگنی کردی تھی شمائل اتنی مہربانی کے پیچھے راز کو کبھی جان نہ سکا ادھر ارسلان اس معمے کو آج تک سلجھا نہیں پایا کہ بازی کیسے پلٹ گئی اور وحید صاحب نے بھی اسے کبھی اصل حقیقت نہیں بتائی








                               سلطان کا عدل

ایک دن سلطان نور الدین زنگی چوگان کھیل رہا تھا کہ اس وقت ایک سپاہی اسکے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضور محترم قاضی صاحب نے آپکو ایک مقدمے کے سلسلے میں اسی وقت عدالت میں طلب کیا ہے



خالد عمرانسلطان نور الدین زنگی اپنے خاندان کا دوسرا حکمران تھا اسکے زمانے میں دو یہودیوں نے رسول اکرمﷺ کے روضہ مبارک کو نقصان پہنچانے کی ناپاک جسارت کی تھی(نعوذ باللہ) جنہیں سلطان نور الدین زنگی نے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا،کہتے ہیں کہ ایک دن سلطان نور الدین زنگی چوگان کھیل رہا تھا کہ اس وقت ایک سپاہی اسکے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضور محترم قاضی صاحب نے آپکو ایک مقدمے کے سلسلے میں اسی وقت عدالت میں طلب کیا ہے سلطان یہ سن کر کھیل چھوڑ کر فوراً اس سپاہی کے ساتھ قاضی صاحب کی عدالت میں جا پہنچا تو قاضی صاحب نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس شخص نے آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ اسکی زمین پر آپ نے ناجائز قبضہ کرلیا ہے آپ کا اس سلسلے میں کیا جواب ہے؟سلطان نے نہایت ادب و احترام سے کہا کہ اس شخص کا دعویٰ درست نہیں ہے وہ زمین میری اپنی ہے اور میرے پاس اسکے ثبوت بھی ہیں قاضی صاحب نے کہا کہ آپ وہ تحریری ثبوت اگلی تاریخ کو پیش کردیں۔

سلطان نور الدین زنگی نے مقررہ تاریخ کو کچھ کاغذات عدالت میں پیش کردئیے ان کاغذات کی بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ زمین سلطان کی ملکیت ہے سلطان نے فیصلہ سنا اور قاضی صاحب کے سامنے ہی کہا کہ اب زمین اپنی طرف سے اس شخص کو دیتا ہوں جس نے مجھ پر مقدمہ دائر کیا ہے کسی نے کہا کہ حضور محترم جب آپ نے یہ زمین اس شخص کو دینی تھی تو مقدمہ لڑنے کی کیا ضرورت تھی وہ پہلے ہی اس شخص کو دے دی ہوتی سلطان نے جواب دیا کہ اگر میں عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی زمین اس شخص کو دے دیتا تو لوگ کہتے کہ میں نے واقعی اس زمین پر ناجائز قبضہ کررکھا تھا اور عدالت کے ڈر سے میں نے قبضہ چھوڑدیا ہے اب جبکہ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ سنادیا ہے اور سب لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ یہ زمین میری ہے تو میں نے اپنی طرف سے زمین اس شخص کو دے دی تاکہ اسکے اوپر کوئی بُرا اثر نہ پڑے قاضی صاحب اور عدالت میں جتنے بھی لوگ تھے سلطان کے عدل دیکھ کر حیران ہوگئے،

واہ!کیسے حکمران تھے کہ وہ لوگ انصاف اور عدل کو اپنا فرض سمجھتے تھے مگر آج کے زمانے میں پاکستان کے طاقتور لوگوں پر جب ایسا وقت آتا ہے تو وہ قانون کی پیروی نہیں کرتے بلکہ جرم کرنے کے باوجود اپنے آپ کو بے قصور ثابت کروالیتے ہیں اور قانون کا مذاق اُڑاتے ہیں،کاش ایسے حکمران ہمارے ملک میں آجائیں جو سلطان نورالدین زنگی کی طرح جو عدل و انصاف کو مقدم سمجھیں،



                                                            برکت

لمبی سرخ گاجریں،سفید اور جامنی شلجم،درمیان میں مٹر کی پھلیاں گہرے جامنی رنگ کے صاف چمک دار بینگن جن کے سر پر تاج تھا ہلکے سبز رنگ کا گھیاکدو،دل للچانے والے سرخ ٹماٹر تازہ میتھی اور پالک غرض ٹھیلا سبزیوں کو عجیب بہار دکھا رہا تھا

عشرت جہاں
رمضو سبزی والے نے ٹھیلے کو جھاڑ بچھاڑ کر صاف کیا اور پھر ترتیب سے اس پر سبزیاں رکھنے لگا لمبی سرخ گاجریں،سفید اور جامنی شلجم،درمیان میں مٹر کی پھلیاں گہرے جامنی رنگ کے صاف چمک دار بینگن جن کے سر پر تاج تھا ہلکے سبز رنگ کا گھیاکدو،دل للچانے والے سرخ ٹماٹر تازہ میتھی اور پالک غرض ٹھیلا سبزیوں کو عجیب بہار دکھا رہا تھا ہرا دھنیا اور سبز مرچیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھی تازہ صاف ستھری پھول گوبھی کھلی پڑی تھی سنہری پیاز ادرک کی گانٹھیں اور لہسن کی کلیاں مسکرارہی تھیں کڑوے کریلے ترتیب سے رکھے تھے ہری ہری بھنڈیوں نے بھی اپنی جگہ بنارکھی تھی اور پودینے کی خوشبونے بھی سماں باندھ رکھا تھارمضو نے خوش ہوکر ٹھیلے پر نگاہ دوڑائی ہرے بھرے ٹھیلے نے اسے مطمن کردیا پھر اس نے سبزیوں پر پانی کا چھڑکاﺅ کیا اور سبزیاں کھل اُٹھیں رمضو نے اللہ کا نام لیا اور ٹھیلا آگے بڑھادیا ترازو کے ساتھ ہی لکڑی کی صندوقچی رکھی تھی جس میں چند نوٹ اورکچھ ریز گاڑی پڑی تھی،آلو لے لو،پالک لے لو،ہرا پیاز ہے،پھول گوبھی ہے،لال لال ٹماٹر ہے،سفید شلجم ہے،گول والے بیگن ہے،رمضو نے گلی سے نکلتے ہوئے آواز لگائی ایک گلی سے دوسری سے تیسری گلی غرض رمضو کا سفر جاری تھا اسی طرح صدائیں بھی رمضو نے اپنا ترازو اس طرز کا بنالیا تھا کہ بظاہر ہر تول پوری ہوتی لیکن حقیقت میں وزن کم ہوتا تھا اس کے علاوہ رمضو دوسرے طریقوں سے بھی بے ایمانی کرتا تھا دوپہر تک ٹھیلے سے آدھی سے زیادہ سبزی بِک چکی تھی اور اس کے ساتھ صندوقچی بھی چھوٹے بڑے نوٹوں اور سکوں سے بھررہی تھی،رمضو دل ہی دل میں حساب کتاب کرکے خوش ہورہا تھا مگر صندوقچی میں موجود برکت بالکل مایوس تھی جب رمضو نے بے ایمانی کا پہلا سکہ صندوقچی میں ڈالا تو برکت دکھ سے چل اُٹھی مگر جب حسب معمول رمضو بے خبر رہا برکے سسکتی رہی بے ایمانی کے چند نوٹوں نے آہستہ آہستہ برکت کو کھالیا برکت ختم ہوگئی لیکن رمضو کو خبر بھی نہ ہوسکی شام ڈھلنے سے پہلے وہ گھر پہنچ گیا خالی ٹھیلا اس نے صحن کے ایک کونے میں کھڑا کیا اور صندوقچی بیوی کے حوالے کی اور خود ٹی وی چلا کر پاس پڑی چارپائی پر نیم دراز ہوگیا۔

کل مال لانے کے لیے پیسے چھوڑ کر باقی اپنے خرچ کے لیے رکھ لو رمضو نے بیوی کو مخاطب کیا،بیوی پہلے ہی نوٹ اور ریز گاری الگ کرچکی تھی ہو نہہ خرچ پورا نہیں ہوتا اتنے پیسوں میں بڑی مشکل سے گزارا کرنا پڑا ہے بچے دونوں بیمار پڑگئے ہیںتو کیا کروں سارا دن محنت کرتا ہوں گلی گلی گھوم پھر کر جوتیاں چٹخاتا ہوں پھر بھی گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا رمضو نے چِڑ چِڑے پن سے جواب دیا میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ خیرو برکت ہی نہیں رہی کسی چیز میں ہر چیز میں سے برکت ختم ہوگئی ہے میاں کو غصے میں آتا دیکھ کر وہ دھیرے سے بولی اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ رمضو کی بے ایمانی کی وجہ سے برکت نہیں رہی تھی،مہنگائی جو بڑھ گئی ہے حکومت بھی کچھ نہیں کررہی ہے عوام بے چاری کیا کرے رمضو نے ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تبصرہ کیا اوربیوی سرہلاتے ہوئے کھانا نکالنے چل دی۔

No comments:

Post a Comment